۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
سانحہ مچھ

حوزہ/ وطن عزیز پاکستان میں اب تک پندرہ ہزار سے زائد شیعیان علی دہشت گردی کا ایندھن بن چکے ہیں۔ پاک سرزمین پر منظم انداز میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا بیج سرکاری سرپرستی میں بویا گیا۔

تحریر: مولانا شاہد عباس ہادی

حوزہ نیوز ایجنسی | کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ کا قتل ظلم و بربریت اور حیوانیت کی بدترین مثال ہے۔ نہیں معلوم اس واقعے نے ہر شخص کو کتنا افسردہ کیا لیکن جیسے ہی یہ خبر سنی اس وقت سے دل بے چین ہے۔ نہ جانے ان ماوں بہنوں نے کیسے اپنے پیاروں کے پامال لاشے دیکھے ہوں گے؟ آخر کون ہیں یہ انسان نما حیوان؟  آخر انسان ذبح کرنے والے ان قصابوں نے کہاں سے تربیت پائی؟ ان کی اس دوکانداری سے کن کے مفادات جڑے ہیں؟ ان درندوں نے کوئٹہ میں انسانیت کو لہولہان کردیا۔

ہاں یہ میرا وطن عزیز پاکستان ہے کہ جس میں داعشیوں نے بے گناہ 11 شیعہ ہزارہ کو بے دردی سے باندھ کر ذبح کردیا۔ آہ کفن میں لپٹی یہ لاشیں ان مزدوروں کی ہیں جن کی پوری زندگی محض محنت و مشقت میں اسلئے گزر جاتی ہے کہ اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کما سکیں۔ یہ مزدور نہ تو کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے انقلابات سے انہیں کوئی غرض ہوسکتی ہے۔ داعش کی سربراہی کرنے والے کون ہیں یہ لوگ جو تھکن سے چور نہتے مزدوروں پر شب خون مارنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ آخر داعش جیسی وحشتناک تنظیم کس مقصد کے تحت ہمارے وطن عزیز میں لائی جا رہی ہے۔ آخر اس واقعے کے پیچھے کن طاقتوں کا ہاتھ ہے۔؟

داعش ایک عالمی انسانی قصابوں کا لشکر ہے جسکی نظریاتی بنیادیں سلفیوں اور نجدیوں سے ملتی ہیں۔ یہ لشکر ہر اس شخص کو کافر ، مرتد اور گمراہ قرار دیتا ہے جو اس کے پرچم تلے نہ ہو۔ اس حیوانی لشکر نے سنگین نوعیت کے انسانی جرائم کا ارتکاب کیا۔ داعش کی غیر انسانی سرگرمیاں مغربی میڈیا کی سرخیوں کی زینت رہی جسکی وجہ سے اسلامو فوبیا کی ترویج ہوئی جسکا نتیجہ ہم مسلسل مغربی میڈیا سے مقدسات اسلام کی توہین کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

وطن عزیز پاکستان میں اب تک پندرہ ہزار سے زائد شیعیان علی دہشت گردی کا ایندھن بن چکے ہیں۔ پاک سرزمین پر منظم انداز میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا بیج سرکاری سرپرستی میں بویا گیا۔ کرائے کے قاتل تیار کیے گئے جن کے شر سے نہ عوام محفوظ رہے نہ ادارے۔ مدارس میں وہابیت اور تکفیریت کی فصل پروان چڑھی ہر طرف نفرت کے کانٹے پھیل گئے۔ ان وہابیوں و تکفیریوں کو طالبان، القاعدہ، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی صورت میں ترتیب دے کر اسلام کا ٹھیکہ دیا گیا۔سرکاری سرپرستی میں پلنے والے ان مجاہدین نے افغان جہاد سے واپس پلٹتے ہی قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ ملک خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہا، شیعہ بارود کا شکار بنتے رہے، ادارے سوتے رہے۔ کبھی انہوں نے مسجد میں نہتے نمازیوں پر بم دھماکہ کیا تو کبھی کسی امام بارگاہ کو نشانہ بنایا۔ یہ سلسلہ صرف شیعوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اہلسنت بھی انکی بربریت کا نشانہ بنے ہیں کبھی کسی عرس پر دھماکہ کیا تو کبھی کسی مزار کے خادموں کو قتل کیا۔ یہ سلسلہ مسلمانوں تک محدود نہیں رہا ان شمر کے پیروکاروں نے عیسائیوں کی بستیاں اجاڑ ڈالی۔ کچھ عرصہ بعد ہی یہ لاڈلے مجاہدین اپنے رکھوالوں پر جھپٹ پڑے۔ پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک سنگین خطرہ بن گئے۔ 1999 میں لشکر جھنگوی نوازشریف کے قافلے کے راستے میں بمب نصب کیا۔ آرمی چیف و سربراہ مملکت جنرل پروپز مشرف پر جان لیوا حملوں کے ماسٹر مائنڈ امجد فاروقی کا تعلق بھی سپاہ صحابہ کی ایک ونگ لشکر جھنگوی سے تھا۔ آئین و قانون کو پاوں تلے روندتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر کالک ملتے ہوئے انہوں نے ڈی آئی خان سنٹرل جیل کو توڑا۔ شیعہ قیدیوں کی شناخت کرکے انھیں ذبح کیا اور اپنے درندوں کو آزاد کراکے لے گئے۔ کیسے یہ محب وطن ہوسکتے ہیں۔؟ نہ جانے ہمارے اداروں کی کیا مجبوریاں ہیں کہ فورتھ شیڈول سے نکال کر ان کو الیکشن لڑایا جاتا ہے؟ کیوں اورنگزیب فاروقی، احمدلدھیانوی اور رمضان مینگل جیسے بدنام زمانہ دہشت گرد تو دندناتے پھریں جبکہ ہمارے جوان مقدس مقامات کی زیارت پر جانے کے جرم میں لاپتہ کردیے جائیں؟ کیوں مدارس کی آڑ میں دہشت گردی کی فیکٹریاں نظر نہیں آتیں؟ وطن عزیز میں داعش کے پرچم تلے منظم ہوتے دہشتگرد گروہ جو پاکستان کو ایک وہابی ریاست بنانا چاہتے ہیں، ایک ایسا پاکستان جسکے آقا سعودی و یہودی ہوں، ایک ایسا پاکستان جسکو اسرائیل سے تعلق میں کوئی عار نہ ہو جس کا مسلم دنیا میں یہودی کٹھ پتلی سے بڑھ کر کوئی کردار نہ ہو۔
اداروں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اگر ان دہشتگرد عناصر کو لگام نہ ڈالی گئی تو بات بہت دور تلک جائے گی کیونکہ سانحہ کوئٹہ ملت تشیع کے صبر کا آخری امتحان ہے۔

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جاۓ گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فراق انصاف پہ یا پاۓ سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گاتو جم جاۓ گا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .